فروزاں تھر پروگرام
فروزاں تھر پروگرام
دوسرا فری میڈیکل کیمپ …. بہ اشتراک کراچی یونیورسٹی والینٹیرز
معاونت: فرینڈز آف ہیومنٹی انٹرنیشنل
سال 2005 میں جب ہم نے فروزاں کا اجرا کیا تھا تو لوگوں نے بہت سمجھایا کہ گھاٹے کا سودا کیوں کرنے چلے ہو۔ بھلا کیا ضرورت ہے ماحولیات پر جریدہ نکالنے کی! اچھے بھلے موضوعات پر لکھنے والے پرچے گھاٹے میں چل رہے ہیں بہت سے بند ہوگئے ہیں، باقی بند ہونے والے اور جو بند نہیں ہوں گے وہ اس لیے کہ ان کے پیچھے بہت بڑے اشاعتی ادارے ہیں جو نام کی خاطر خسارہ برداشت کرسکتے ہیں، کچھ لوگوں کا موقف تھا کہ آپ لوگ قدرتی ماحول کے تحفظ کا مسئلہ کیوں اٹھارہے ہیں یہ تو ہمارے معاشرے کا اور اس میں رہنے والے شہریوں کا بنیادی تو کیا ثانوی مسئلہ تک نہیں ہے لہٰذا پذیرائی ممکن نہیں ہوگی۔
ہمیں اس حقیقت کا اعترف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ان 10 سے زائد برسوں میں فروزاں بھی دیگر بہت سے وسائل و جرائد کی طرح کب کا بند ہوچکا ہوتا، اگر ایسا نہ ہوسکا تو اس میں ہماری کاوشیں کم اور ان مہربان شخصیات اور چند اداروں کی حوصلہ افزائی کا دخل کہیں زیادہ تھا اور ہے کہ جنہوں نے ماحولیاتی آگہی کی ہماری کاوش کو جاری رکھنے میں ہماری ہر طرح سے مدد کی۔ آپ کے لیے یہ تصور کرنا ہی ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کتنی مشکلوں اور مرحلوں سے مسلسل گزرتے رہے ہیں اور آج بھی گذر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ وقت سے بڑا منصف کوئی اور نہیں وقت ہی فیصلہ کرتا ہے کہ مشکل حالات میں کوئی ثابت قدم رہا ۔ جو حوصلہ نہیں ہارتے اور ثابت قدم رہتے ہیں لوگ ان کی قدر کرتے ہیں اور اسی طرح جدوجہد کا سفر جاری رہتا ہے۔
فروزاں کی کاوشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے معروف ماحولیاتی ماہر اور گلوبل واٹر پاٹنر شپ کے ریجنل ایکسپرٹ ڈاکٹر پرویز امیر نے فروزاں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ صحرائے تھر جو بھیانک ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے کہ دور دراز علاقوں میں مخٹلف نوع کی فلاحی سرگرمیاں شروع کرے اور اس ضمن میں ان اداروں اور مخیر حضرات کا تعاون حاصل کرے جو صحرائے تھر میں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اور غریب ترین متاثرین کی امداد میں پیش پیش ہیں، ہم نے ان کے مشور ے پر عمل کیا اور آگہی کے فروغ کے ساتھ عملی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ۔ اس ضمن میں جب ہم نے فروزاں کے دوستوں سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے اس حوالے سے ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔ واضح رہے کہ ان فلاحی اور امدادی سرگرمیوں کا دائرہ ابھی صرف ان علاقوں تک محدود رکھا گیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ گذرے ڈیڑھ سال میں فروزاں نے اس حوالے سے تھر کے دور دراز کے علاقوں میں مخیر حضرات کی مدد سے 6 تالاب، درجن سے زائد بایو سینڈ ز کے مٹکوں کے علاوہ پچھلے سال رمضان میں 115 سلے سلائے جوڑے اور 150 چپل کے جوڑے تقسیم کیے جبکہ رواں سال 5-6 فروری کو پاکستان واٹر پاٹنر شپ اور کراچی یونیورسٹی والنٹیرز کے اشتراک سے 2 رو ز فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد تحصیل چھاچھرو کے دیہی علاقے مان بائی جو تڑ کے علاوہ مٹھی سے 30 کلومیٹر دور دیہی گاؤں باراج میں کیا گیا۔ دو روزہ اس فری میڈیکل کیمپ میں کل ملا کر 700 سے زائد مریضوں کا طبی معائنہ کرنے کے ساتھ انہیں دوائیں بھی مہیا کی گئی۔
فلاحی سرگرمیوں کے اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 4 جون بروز ہفتہ ڈسٹرکٹ تھرپار کر کی تحصیل چھاچھرو سے 30 کلو میٹر دور گاؤں مان بائی جوتڑ میں دوبارہ فری میڈیکل کیمپ لگایا گیا جس کے لیے مالی معاونت امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم ”فرینڈ آف ہیومینٹی انٹرنیشنل“ نے فراہم کی ۔ اس ایک روزہ میڈیکل کیمپ کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں 50 فیصد سے زائد ایسے مریضوں نے فالواپ کے لیے معائنہ کرایا جو فروری میں لگائے جانے والے کیمپ میں اپنا طبی معائنہ کرا چکے تھے۔ صبح آٹھ بجے شروع کیے گئے اس کیمپ میں جو شام 5 بجے تک جاری رہا تقریباً 4 سو کے قریب خواتین، مرد، بچے اور بزرگوں نے اپنا طبی معائنہ کروایا۔ صحرا کی شدید ترین گرمی کے باوجود مریضوں کی آمد کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔
تحصیل چھاچھرو کے دیہی علاقے میں موجود یہ گاؤں کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کی آبادی 3ہزار سے زائد مسلمانوں اور ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ اس گاؤں میں صحت کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ گاؤں سے تقریباً 27 کلومیٹر دور ایک گورنمنٹ اسپتال ضرور موجود ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو تقریباً 4 کلومیٹر صحرا میں پیدل چل کر اس ٹوٹی پھوٹی سڑک تک پہنچنا ہوتا ہے جہاں سے اسپتال جانے کے لیے ریگستان میں چلنے والی مخصوص جیپ جسے عرم عام میں کیکڑا جیپ کہا جاتا ہے ملتی ہے جس میں تقریباً 12 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اس میں 20 سے 25 افراد کے ساتھ کئی من وزنی سامان بھی لاد دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص شدید بیمار ہوجائے تو اسپتال لے جانے کے لیے اس گاڑی کو بلایا جاتا ہے جس کا کرایہ 2 ہزار روپے ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ضلع تھر پار کر میں ایک ضلعی اسپتال کے علاوہ چار تحصیلوں میں سرکاری اسپتال موجود ہیں، اس کے علاوہ 250 بنیادی صحت کے مراکز ہیں۔ ان اسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز تک شہروں اور ان کے نزدیک رہائش رکھنے والے افراد ہی پہنچ پاتے ہیں۔ الم ناک بات یہ ہے کہ جو لوگ صحرا کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور معمولی سی طبی سہولت بھی ان تک نہیں نہیں پہنچ پاتی ۔ اس کا اندازہ گاؤں مان بائی جوتڑ سمیت صحرا کے دور افتادہ علاقوں میں بسنے والے تھری باشندوں کو دیکھ کر ہوتا ہے جہاں بنیادی صحت کے مراکز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
فروزاں اور کراچی یونیورسٹی والنٹیرز کی ٹیم کراچی سے براہ راست چھاچھرو گئی، جہاں سے صحرا میں چلنے والی مخصوص گاڑی میں سامان رکھ کر گاؤں مان بائی جوٹر پہنچی جہاں مقامی سوشل ورکر قمر دین اور ان کے ساتھیوں نے میڈیکل کیمپ کے لیے جگہ کا انتظام کیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین نے انتہائی دلجمعی کے ساتھ صبح آٹھ بجے سے لے کر 5 بجے شام تک تقریباً 400 مریضوں کا معائنہ کیا اور انہیں دوائیں مہیا کی گئی۔ زیادہ تر مریضوں کو دمہ، سانس کی بیماریوں سمیت جسم میں پانی کی کمی سے ہونے والی بیماریاں لاحق تھیں۔
صحرائے تھر کے دیہی علاقوں میں پانی خصوصاً صاف پانی کی مسئلہ انتہائی شدید نوعیت کا ہے۔ وہاں موجود کنوؤں کا پانی انتہائی کڑوا ہوتا ہے جو جانوروں سمیت وہاں رہائش پذیرتھری باشندے یہ پانی پینے سے لے کر ہر ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے باعث وہاں متعدد بیماریاں جنم لے رہی ہیں جبکہ ان کے پاس کسی قسم کی طبی سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ اس گاؤں میں سیاسی بنیادوں پر من پسند افراد کے گھروں میں 3 آر او پلانٹ لگائے گئے تھے جبکہ ایک آر او پلانٹ این جی او نے لگایا تھا۔ اس وقت چاروں آر او پلانٹ خراب ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کچھ آ ر او پلانٹ گاؤں میں موجود کنووؤں کے ساتھ لگا دیے جائیں اور کمیونٹی کے افراد کو اس کا ذمہ دار بنادیا جائے تو لوگوں کو صاف پانی حاصل ہوجائے گا اور انہیں متعدد بیماریوں سے نجات بھی مل جائے گی۔ گاؤں کے لوگوں نے دوسرے میڈیکل کیمپ کا انعقاد کو سراہتے ہوئے ٹیم سے درخواست کی کہ اس کام کو جاری رکھا جائے۔فروزاں تھر پروگرام کا مرکز تھر کے ان دیہی علاقوں کو بنایا گیا ہے جہاں اداروں اور سماجی تنظیموں کا گذر کم کم ہوتا ہے یا مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتا۔
کراچی سے جانے والی اس ٹیم میں فروزاں کے ایڈیٹر محمد عالم خالد، سائیٹنفک ایڈیٹر اور کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر وقار احمد، سینئر میڈیکل آفیسر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر سید عابد حسین، کاشف عثمانی، عامر شہاب، محمد توقیر، عمیر عالم اور علی شامل تھے۔